ریاستِ جامعہ
ریاستِ جامعہ یعنی یونیورسٹی بذاتِ خود ایک چھوٹی سی ریاست ہوتی ہے۔ جس کا انتظامی ڈھانچہ بالکل کسی مستحکم ریاست کے طرزِ عمل پر ہوتا ہے۔ سب سے پہلے صدر یا رئیس جامعہ آتے ہیں جنہیں عرف عام میں وائس چانسلر کہا جاتا ہے ۔ اور ان کا کام عین صدر کی طرح اچھے کپڑے پہن سامنے رکھے کاغذات پر بغیر پڑھے دستخط کرنا ہوتا ہے. پرانے بنائے ہوئے واش رومز کلاس رومز اور ہاسٹلز پر نیا رنگ ہونے کی صورت میں فیۃ کاٹنے کا اہم فریضہ بھی انہیں ہی سرانجام دینا پڑتا ہے۔ اس کے بعد فیکلٹیز اور ڈیپارٹمنٹس کے سرباہان آتے ہیں جن کی اکثریت اپنے رائیس کے وفادار اور کچھ تو اس کی کرسی سے بھی وفا کرنے کی سوچ رکھتے ہیں۔ چند ایک ذہنی طور پر اپنے رئیس کی مروج پالیسی سے اختلاف رکھتے ہیں اور چوںکہ خروج ایک گناہ ہے اس لیے وہ اپنی سوچ کو زبان تک نہیں لاتے ہیں۔
یہ دراصل وفاقی وزیروں کی طرح ہوتے ہیں جن میں سے اکثریت کا کام ریاستی ترقی کے نام پر اپنی ترقی کرنا اور جدید علوم کی رسائی کے نام پر اپنے لیے جدید ماڈل کی گاڑی خریدنا ہے۔ ادارے کی ترقی کے لیے خرچ ہونے والے روپے کو انتہائی زیرک دماغی سے استعمال کر کی بچائی جانے والی رقم کو اپنے اہل وعیال کی فلاح و بہبود پر خرچ کرنا بھی ان کا ہی کار ہائے نمایاں ہے کیونکہ اس طرح وہ آئندہ ریاست پر حکمرانی کرنے والی نسلوں کی بہتر تربیت کر رہے ہیں جو کے از خود ریاست پر ایک احسان ہے۔
اس کے بعد باری آتی ہے وہاں کے صوبائی وزیروں کی جنہیں ریاستِ جامعہ کی اصطلاح میں ٹیچنگ فیکلٹی کہا جاتا ہے ۔ ان میں سے اکثریت کا کام وفاقی وزیروں کی منہ پر تعریف اور پیٹھ پیچھے کرپشن کی داستانیں بیان کرنا ہے ۔ ان میں سے ہر ایک شخص آئندہ آنے والے کسی دور میں وفاقی وزیر بننے کا سوہانا سپنا دیکھتا ہے اور عوام کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش بھی کرتا ہے ۔ تاہم ان میں بھی کو وزیر اعلی کے منصب تک پہنچ جاتے ہیں وہ عوام کو منہ لگانا اپنی توہین سمجھتے ہیں۔ ان میں کچھ ایسے وزراء بھی ہوتے ہیں جو تمام کام بخوبی انجام دیتے ہیں سوائے اپنی وزارت کےکاموں کے۔سب سے آخری درجہ آتا ہے حقیر اور ذلیل عوام کا جنہیں وہاں کی اصطلاح میں طالب علم کہا جاتا ہے۔ ان کے ساتھ عین وہی سلوک ہوتا ہے جس کی عوام مستحق ہے. یعنی انہیں بھی ویسے سنہری خواب دکھا کر چار سال کے لیے میٹھی نیند سلا دیا جاتا ہے۔ ان کی رسائی ہر وزیر تک ممکن نہیں اس لیے جس تک ممکن ہو اس کی تعریف و توصیف کر کے یہ اپنے حقوق حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں جس میں انہیں اکثر ناکامی کا منہ دیکھنا پڑتا ہے۔
یوں تو وفاق کے لوگوں تک اُن کی رسائی ممکن نہیں مگر کبھی کسی ضروری فوٹو سیشن کے تحت اُنھیں ان حقیر لوگوں سے ملنا پڑ جائے تو وفاق کے لوگ مختلف طرح سے اُنھیں دبانے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ اُنھیں کوئی اور مطالبہ کرنے کی ہمت باقی نہ رہے ۔ تاہم اس ریاست میں ایک بات جو عام ریاستوں سے قتعی مختلف ہوتی ہے وہ ہے حقوق نسواں ۔ یہاں پر حقوقِ نسواں کا ضرورت سے زیادہ پاس رکھا جاتا ہے تاہم چند لوگ حقوق مرداں کے لئے بند دریچوں کے پیچھے بولتے ہیں جن کے بقول یہاں حقوقِ مرداں کا کھلا احتصال کیا جاتا ہے۔ کہنے والے تو کہتے ہیں کے آپ کی صنف کی نازکیت ہی آپکی کامیابی کی اصل ضمانت ہے۔ ورنہ آپ ہزار تگ ودو کر لیں جب تک جنس تبدیل نہیں کرتے اچھے گریڈز کی سوچ اپنے گماں میں لانا بھی گناہ ہے۔
خواتین کو اس ریاستِ جامعہ میں جو اس قدر افضلیت حاصل ہے تو کہیں آپ یہ نہ سوچیے گا کہ وزراء اپنی شریکِ حیات ڈھونڈنے کے چکر میں ایسے چکر دے رہے ہیں۔ دراصل اُن کی ملنے والا یہ مقام ایک سایکلوجیکل فیکٹر کی وجہ سے ہے۔ وزراء کے ذہن میں یہ بات کندہ ہوتی ہے کے حضرات ہمیشہ نکمے ہوتے ہیں اور خواتین سخت محنتی۔ کو گھر کے کام کاج کے ساتھ تعلیم جاری رکھ کر نہایت مشکل کام سر انجام دے رہی ہیں حالانکہ وہ یہ بات بلکل نظر انداز کر دیتے کے بیچارے ہوسٹل میں مقیم لڑکے بھی کپڑے برتن دھونے سے لے کر جھاڑو لگانے تک سب کام خود انجام دیتے ہیں وہ بھی مانگے ہوئے صابن, بالٹی اور جھاڑو کی مدد سے ۔ ان میں چند افراد ایسے بھی ہیں جو اپنے اخراجات اٹھانے کی بھی تگ ودو کر رہے ہیں۔
آخر میں بات کرتے ہیں یہاں کی بیورو کریسی کی جس میں اٹینڈنٹ سے لے کر پرسنل سیکریٹری اور ہیڈ کلرک تک شامل ہیں۔ یہاں کے اکثر بیوروکریٹ بھی کرپٹ پائے جاتے ہیں جو حلال طریقہ سے رزق حرام کرتے ہیں ۔ تاہم یہاں کے نچلے درجے کے بیوروکریٹس جن کے ہاتھ میں کوئی اختیار نہیں ہوتا محض اونچی اونچی باتوں سے اپنے اختیارات عوام کو منوانے کی کوشش کرتے ہیں اور بھولی بھالی عوام بھی ان کو خوش کرنے کے لیے بلا چاں چروں ان کی باتوں کو سن لیتی ہے۔
خدا کا شکر ہے کے ایسا کوئی معاملہ ہماری جامعہ کے ساتھ نہیں ورنہ یہاں بھی وفاق کی کرپشن اور عدم توجہی سے ڈپارٹمنٹ کا انفراسٹرکچر تباہ اور صوبائی حکمرانوں کی جانب داری کی وجہ سے ہمارے گریڈ کھٹائی میں پڑا ہونا تھا ۔ اب ہماری حالت جاننے کے لیے ان دونوں میں سے کوئی بھی سوال ہم سے نے پوچھا جائے ورنہ نتائج کے زمہ دار آپ خود ہوں گے ۔
لکھاری ! حسیب مہر
Want to publish your post on AlifAdab?
If you want to publish your articles, ideas, thoughts, and feedback click the button below and you will be redirected to another page where you can easily create your post and submit it. After reviewing your post, we will approve and publish it if it follows our policies and terms. We will publish your post within 24 hours after submission.
جب لکھاری حسیب مہر لکھا ہے تو آرتھر كا نام زوہیب سیال کیوں اوپر لکھا آ رہا؟
Sorry dear the writer is Haseeb as mentioned in the article, but the article publisher is Zaib Sial