دعا

دعا

دعا

لوگوں کے ذہن میں اس مضمون کا عنوان دیکھ کر مختلف طرح کے خیال اُبھرتے ہیں ۔ مثلاً کچھ لوگوں کا ذہن فوراً کسی ایسی دعا کی طرف گیا ہو گا جو پڑوس میں رہتی ہے یا کسی کی خالہ , پھوپھو یا کسی دور کی آنٹی کی دعا۔ جس کو حاصل کر کے وہ “سدا سہاگن رہو” کی دعا سننا چاہتے ہوں۔ کچھ لوگوں کو وہ دعا یاد آئی ہو گی جس کے بارے میں شاعر کہتا تھا 

ہم اسے دعائے بد تو نہیں دیتے۔۔۔

دعا

خیر یہ تو ایک بد دعا ہوئی۔ لیکن پھر بھی دعا تو دعا ہو ہوتی ہے بد ہو یا نیک یہ تو الگ بحث ہے ۔ کچھ لوگوں کو ماضی کی کوئی تلخ یاد کاٹے گی کہ وہ نمازوں کے بعد دعا میں کیا کیا مانگتے رہے ہیں۔ خیر اب اس بات کا تو امکان بہت ہی کم ہے کہ کسی کو ایک پرانا کتابی جملہ ” میں تمہیں تہجد میں مانگتا ہوں” یاد آئے کیونکہ اب تہجد کا دور تو بہت پرانا ہو چکا۔ اب تو “لیٹ نایٹ والكس” یا “لیٹ نایٹ چیٹنگ” کا دور ہے۔

بہرحال دعا جو بھی ہو اُسے پانے کی میرا مطلب اس کے قبول ہونے کی تمنّا تو ہر طالب کے دل میں ہوتی ہے ۔ لیکن بات جو کرنے کی تھی وہ یہ کے ایک شخص عجیب مخمصے میں ڈال گیا ہے کہ جناب دعا قبول ہوتی ہے اس کا مطلب دعا مانگی جاتی؟ میں نے کہا حضرت ظاہر سی بات ہے مانگی ہی جاتی ہے اس میں نئی بات کیا ہے ۔ موصوف بولے لیکن ہم تو ساری زندگی  پڑھتے ہی رہے مانگی تو کبھی نہیں۔ میں بولا ایک ہی تو بات ہے حضرت ۔ موصوف پر پتہ نہیں کونسا فلسفہ طاری تھا بولے جناب مانگنے اور پڑھنے میں فرق ہوتا یا نہیں؟ میں نے کہا بلکل ہوتا جناب لیکن دعا کا۔۔۔

فلاسفر نے میری بات کاٹی لیکن ویکن کُچھ نہیں صاحب۔۔ ہر جگہ اصول ایک ہی لاگو ہوتا۔ ہم تو ساری زندگی پڑھتے رہے ہیں کے “اھد صراط مستقیم” ہمیں تو پتہ ہی نہیں لگا ہے یہ مانگنا ہے پڑھنا نہیں۔ اس کے علاوہ بھی قرآن کی بہت سی دعائیں یاد کر کے پڑھی ہیں لیکن اب سوچتا ہوں اُن کا مطلب سمجھ کے میں نے کبھی مانگی نہیں ہیں۔ یار ( فلاسفر اب ذرا ہے تکلف ہوا) مانگنے کے لیے تو منتیں سماجتیں كرنی پڑتی ہیں۔ لیکن دعا تو میں نے ہمیشہ ایسے مانگی ہے جیسے اپنی اُدھار دی ہوئی شرٹ کسی دوست سے مانگ رہا ہوں۔ لیکن یار میں کبھی کسی دوست سے مانگنے والی کیفیت بھی تو محسوس نہیں کی۔ میں تو ہمیشہ پڑھتا رہا ہوں جیسے کوئی بچہ اسکول کے ابتدائی دونوں میں حروفِ تہجی رٹ کے پڑھتا رہتا ہے اس کے معنی و مفہوم سے بلکل ناآشنا۔ پھر بھی قبول ہونے کی امید لگائے رہا ہوں ہمیشہ, حالانکہ میں نے کبھی مانگا ہی نہیں۔ مانگنا چاہیے پڑھنا نہیں چاہیے یہ سوچ تو اب آ رہی ہے مجھے۔

پھر فلاسفر کسی گہری سوچ میں غرق ہو گیا۔ وہ تو باتیں کر کے سوچ میں ڈوب گیا لیکن مجھے خاصی دیر کے لیے اُلجھا گیا۔ لیکن یہ الجھن دیر تک قائم نہ رہ سکی کیوں کے ہمیں تو دعا سے مطلب پھر وہ مانگنے سے ملے یا پڑھنے سے۔ بہرحال جو بھی ہمیں دعا دے (چاہے وہ پہلی ہو یہ آخری) ہم تو سدا اُسے دعائیں دیں گے۔

لکھاری! حسیب مہر

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *